Asif Ali Zardara Life آصف علی زرداری
:
آصف علی زرداری | |
گیارہویں صدر پاکستان | |
Incumbent | |
Assumed office 9 ستمبر 2008ء | |
(شریک چئیرمین) پاکستان پیپلز پارٹی | |
---|---|
Incumbent | |
Assumed office 30 دسمبر 2007ء | |
پیدائش | 26 جولائی 1955 کراچی , پاکستان |
سیاسی جماعت | پاکستان پیپلز پارٹی |
ازواج | بینظیر بھٹو (1987–2007) |
بچے | بلاول بختاور آصفہ |
سکونت | اسلام آباد, پاکستان |
مموجودہ صدر پاکستان۔آصف علی زرداری پاکستان کے سینئیر سیاستداں اور ذوالفقار علی بھٹو کے ابتدائی سیاسی ساتھیوں میں شامل حاکم علی زرداری کے بیٹے ہیں۔۔آصف زرداری جولائی انیس سو چھپن میں پیدا ہوئے۔جبکہ والدہ کا تعلق سندھ کے مشہور تعلیمی گھرانے آفندی گھرانے سے ہے یہ بات پاکستان کا ہر صاحب علم اور دانشور جانتا ہے کے سندھ میں تعلیم کے فروغ میں آفندی خاندان کا جو کردار رہا ہے وہ کسی بھی خاندان کا نہیں ہے
مرحو م حاکم علی زرداری سندھ میں آباد زرداری بلوچ قبیلے کے سردار تھے زرداری قبیلہ بنیادی طور پر بلوچ ہے جس کے بیشتر افراد سندھ میں ضلع نوابشاہ اور بلوچستان کے سرحدی علاقے میں آباد ہیں
مرحوم حاکم علی زرداری کا زرداری قبیلے کے سردار ہونے کے حوالے سے سندھ کے علاقے نوابشاہ بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں کافی اثر رسوخ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
حاکم علی زرداری کا اندرونِ سندھ آبائی زمینداری کے ساتھ کراچی میں بھی کاروبار اور سینما گھر تھا اس کے علاوہ شاہراہ فیصل پر واقع مہران ہوٹل کے بالکل سامنے سول لائینز میں اپنا زاتی گھر اور بہت سی جائداد بھی تھی۔
مرحو م حاکم علی زرداری سندھ میں آباد زرداری بلوچ قبیلے کے سردار تھے زرداری قبیلہ بنیادی طور پر بلوچ ہے جس کے بیشتر افراد سندھ میں ضلع نوابشاہ اور بلوچستان کے سرحدی علاقے میں آباد ہیں
مرحوم حاکم علی زرداری کا زرداری قبیلے کے سردار ہونے کے حوالے سے سندھ کے علاقے نوابشاہ بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں کافی اثر رسوخ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
حاکم علی زرداری کا اندرونِ سندھ آبائی زمینداری کے ساتھ کراچی میں بھی کاروبار اور سینما گھر تھا اس کے علاوہ شاہراہ فیصل پر واقع مہران ہوٹل کے بالکل سامنے سول لائینز میں اپنا زاتی گھر اور بہت سی جائداد بھی تھی۔
بچپن اور تعلیم |
آصف علی زرداری نے ابتدائی تعلیم سینٹ پیٹرکس اسکول کراچی میں حاصل کرنے کے بعد دادو میں قائم کیڈٹ کالج پٹارو سے انیس سو چوہتر میں انٹرمیڈیٹ کیا۔ یہ بات واضح رہے کہ بھی پاکستان کے دو سابق وزرائے اعظم، محمد خان جونیجو، شوکت عزیز اور سابق صدر پرویز مشرف کے بعد آصف علی زرداری سینٹس پیٹرکس اسکول کے چوتھے طالب علم ہیں جو پاکستان کے اعلیِ ترین عہدے پر فائیز ہوئے جبکہ پاکستان کے بے شمار حاضر ڈیوٹی سول اور فوجی افسرانوں نے بھی سینٹ پیٹرک اسکول سے ہی تعلیم حاصل کی ہے بھارتی سیاسی رہنما ایل کے اڈوانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بھی اپنی ابتدائی تعلیم سینٹس پیٹرک اسکول ہی سے حاصل کی بعد میں انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس اینڈ بزنس نامی ادارے میں بھی داخلہ لیا تھا۔ زمانہ طالب علمی کے دور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس وقت بھی آصف زرداری یاروں کے یار کے طور پر کراچی کے متمول حلقوں میں جانے جاتے تھے۔انیس سو اڑسٹھ میں کمسن آصف نے فلمساز سجاد کی اردو فلم ’منزل دور نہیں‘ میں چائلڈ سٹار کے طور پر بھی اداکاری کی۔ فلم کے ہیرو حنیف اور ہیروئن صوفیہ تھیں۔لیکن یہ ایک فلاپ فلم ثابت ہوئی۔
سیاست
پاکستان کے اہم قبائلی سردار اور سیاست دان باپ کے اکلوتے بیٹے ہونے کے ناطے سیاست سے آصف علی زرداری کا انتہائی گہرا تعلق تھا مگر یہ دوسری بات تھی کہ آصف علی زرداری نے اپنی سیاست کا اظہار زیادہ تر پس پردہ ہی رہ کر کیا ۔ بس ایک سراغ یہ ملتا ہے کہ انیس سو پچاسی کے غیرجماعتی انتخابات میں آصف علی زرداری نے بھی نواب شاہ میں صوبائی اسمبلی کی ایک نشست سے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے تھے۔
مگر یہ کاغذات واپس لے لئے گئے۔ اسی زمانے میں آصف علی زرداری نے وزیرِ اعلٰی غوث علی شاہ کے ایک وزیر سئید کوڑل شاہ کے مشورے سے کنسٹرکشن کے کاروبار میں بھی ہاتھ ڈالا لیکن اس شعبے میں آصف زرداری صرف دو ڈھائی برس ہی متحرک رہے
محترمہ بے نظیر بھٹو سے شادی
مگر یہ کاغذات واپس لے لئے گئے۔ اسی زمانے میں آصف علی زرداری نے وزیرِ اعلٰی غوث علی شاہ کے ایک وزیر سئید کوڑل شاہ کے مشورے سے کنسٹرکشن کے کاروبار میں بھی ہاتھ ڈالا لیکن اس شعبے میں آصف زرداری صرف دو ڈھائی برس ہی متحرک رہے
محترمہ بے نظیر بھٹو سے شادی
انیس سو ستاسی آصف علی زرداری کے لئے سب سے فیصلہ کن سال تھا جب انکی سوتیلی والدہ ٹمی بخاری اور بیگم نصرت بھٹو نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ آصف کا رشتہ طے کیا۔اٹھارہ دسمبر انیس سو ستاسی کو ہونے والی یہ شادی کراچی کی یادگار تقاریب میں شمار ہوتی ہے۔ جس کا استقبالیہ امیر ترین علاقے کلفٹن کے ساتھ ساتھ غریب ترین علاقے لیاری کے ککری گراؤنڈ میں بھی منعقد ہوا اور امرا کے شانہ بشانہ ہزاروں عام لوگوں نے بھی شرکت کی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد بے نظیر بھٹو اور انکے لاکھوں سیاسی پرستاروں کے لیے یہ پہلی بڑی خوشی تھی۔
وزارت
انیس سو اٹھاسی میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو برسرِ اقتدار آئیں ۔انیس سو نوے میں بے نظیر حکومت کی برطرفی کے بعد ہونے والے انتخابات میں وہ رکنِ قومی اسمبلی بنے۔ سابق صدر غلام اسحاق خان نے جب نواز شریف حکومت کو برطرف کرکے بلخ شیر مزاری کو پاکستان کا نگران وزیر آعظم مقرر کیا تو آصف علی زرداری بھی نگراں وزیرِ اعظم میر بلخ شیر مزاری کی کابینہ میں وزیر بنے پھر بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں رکنِ قومی اسمبلی اور وزیرِ ماحولیات و سرمایہ کاری رہے۔ وہ انیس سو ستانوے سے ننانوے تک سینٹ کے رکن رہے۔
ہنگامہ خیز سال مخالفین کی ناکام کوششیں
انیس سو نوے سے دوہزار چار تک کے چودہ برس آصف زرداری کی زندگی کے سب سے ہنگامہ خیز سال ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں ان پر کرپشن کے الزامات لگنے شروع ہوئے اور ان پر مسٹر ٹین پرسنٹ کا خطاب چپکانے کی کوشش کی گئی۔ سب سے پہلےانیس سو نوے میں انہیں صدر غلام اسحاق خان کے دور میں ایک برطانوی تاجر مرتضٰی بخاری کی ٹانگ پر بم باندھ کر آٹھ لاکھ ڈالر اینٹھنے کی سازش کے الزام میں حراست میں لیا گیا۔ لیکن انہی غلام اسحاق خان نے بعد میں آصف زرداری کو رہا کردیا۔ اور پھر غلام اسحاق خان نے آصف علی زرداری سے وزیر کے عہدے کا حلف بھی لیا ۔کیا سچ اور کیا جھوٹ پاکستانی عوام اب تک اس کو سمجھ نہیں سکیں ہیں کہ جس شخص کو گرفتار کروایا اس سے سے پھر بعد میں وزیر کے عہدے کا حلف بھی لے لیا۔۔۔۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق غلام اسحاق خان نے بے نظیر اور آصف زرداری پر کرپشن کے انیس ریفرینسز فائل کئے لیکن ان میں سے کوئی ثابت نہیں ہو سکا۔
مقدمات
پانچ نومبر انیس سو چھیانوے کو دوسری بے نظیر حکومت کی برطرفی کے بعد آصف زرداری کا نام مرتضی بھٹو قتل کیس میں آیا۔ نواز شریف حکومت کے دوسرے دور میں ان پر سٹیل مل کے سابق چیئرمین سجاد حسین اور سندھ ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس نظام احمد کے قتل اور منشیات کی سمگلنگ میں ملوث ہونے، سوئس کمپنی ایس جی ایس کوٹیکنا ، دوبئی کی اے آر وائی گولڈ کمپنی سے سونے کی درآمد، ہیلی کاپٹروں کی خریداری، پولش ٹریکٹروں کی خریداری اور فرانسیسی میراج طیاروں کی ڈیل میں کمیشن لینے، برطانیہ میں راک وڈ سٹیٹ خریدنے، سوئس بینکوں کے ذریعے منی لانڈرنگ اور سپین میں آئیل فار فوڈ سکینڈل سمیت متعدد کیسز بنائے گئے۔ اس طرح کی فہرستیں بھی جاری ہوئیں کہ آصف علی زرداری نے حیدرآباد، نواب شاہ اور کراچی میں کئی ہزار ایکڑ قیمتی زرعی اور کمرشل اراضی خریدی، چھ شوگر ملوں میں حصص لیے۔ برطانیہ میں نو، امریکہ میں نو، بلجئم اور فرانس میں دو دو اور دوبئی میں کئی پروجیکٹس میں مختلف ناموں سے سرمایہ کاری کی۔ قومی مفاہمت فرمان کے متعلق مقدمہ کی سماعت کے دوران قومی احتساب دفتر نے عدالت کو بتایا گیا کہ آصف علی زرداری نے بینظیر کی حکومت کے زمانے میں ڈیڑھ بلین ڈالر کے ناجائز آثاثے حاصل کیے۔ااگر چہ کہ اب تک یہ بات ثابت نہیں ہوسکی ہے ]
سیاسی جدوجہد ۔۔۔۔۔۔۔۔اسیری کے دن
غلام اسحاق خان سے لے کر نواز شریف اور پرویز مشرف تک کی حکومتوں نے اندرون و بیرونِ ملک ان الزامات ، ریفرینسز اور مقدمات کو آگے بڑھانے کے لیے ایک خطیر رقم خرچ کی ۔آصف زرداری تقریباً مل ملا کر گیارہ برس جیل میں رہے۔ جیل میں بھی آصف علی زرداری اپنی خدا ترسی اور عوام دوستی کے حوالے سے مرکزِ توجہ رہے۔ جیل میں عام طور پر مشہور تھا کہ آصف علی زرداری تک کوئی بھی قیدی اگر ایک مرتبہ اپنی شکائیت یا مسئلہ پہنچا دے تو پھر یہ لازمی امر بن جاتا تھا کہ آصف علی زرداری اس قیدی کا مسئلہ حل کراتے انہوں نے قیدیوں کی فلاح و بہبود کے لیے بے شمار کام انجام دیئے، جن میں کھانے اور کپڑوں کی تقسیم اور نادار قیدیوں کی ضمانت کے لیے رقم کا بندوبست بھی شامل رہا۔ دورانِ قید ان پر جسمانی تشدد بھی ہوا۔ لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
صدر پاکستان
جب پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو کے مابین امریکہ ، برطانیہ اور بعض بااثر دوستوں کی کوششوں سے مصالحت کا آغاز ہوا۔ اسکے بعد سے انکے اور آصف زرداری کے خلاف عدالتی تعاقب سست پڑنے لگا۔ کوئی ایک مقدمہ بھی تو ثابت نہیں ہوسکا ۔اس سلسلے میں اکتوبر دو ہزار سات میں متعارف کرائے گئے متنازعہ قومی مصالحتی آرڈینننس نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ ستائیس دسمبر دو ہزار سات کو بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔شروع میں اندازہ یہ تھا کہ آصف زرداری صرف پارٹی قیادت پر توجہ مرکوز رکھیں گے اور مسٹر سونیا گاندھی بن کے رہیں گے۔لیکن ۔اگست 2008ء میں الطاف حسین نے زرداری کا نام صدر پاکستان کے عہدہ کے لیے تجویز کیا، جس کے بعد پیپلزپارٹی نے با ظابطہ طور پر آپ کو 6 ستمبر 2008 کے صدارتی انتخاب کے لیے نامزد کر دیا۔ ( اگر چہ کے بانی پاکستان حضرت قائد اعظم گورنر جنرل کے عہدے پر فائیض رہتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ تھے ان کی اس روایت کو بعد میں آنے والے گورنرجنرلوں اور خاص طور پر صدر ایوب خان نے بھی نبھایا جنرل ضیاء الحق کے بعد صدر کے عہدے پر فائیض افراد کی جانب سے اپنے آپ کو بظاہر غیر سیاسی ظاہر کیا گیا جیسا کہ صدر فاروق احمد لغاری نے پیپلز پارٹی کے تمام عہدوں سے استعفیِ دیدیا تھا یا پھر رفیق تارڑ جن کے پاس کسی بھی طرح کا کوئی اختیا ر ہی نہ تھا سوائے اس کے کہ انہیں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے اتفاق فاونڈریز کے لیگل ایڈوائیزر سے ترقی دے کر صدر پاکستان کے عہدے پر فائیض کردیا تھا )عموماً صدر نامزد ہونے والے سیاسی جماعت سے مستعفی ہو جاتے ہیں عدالت عالیہ لاہور نے زرداری کو حکم دیا کہ صدر رہتے ہوئے وہ سیاسی عہدہ چھوڑ دیں ۔[6] ·
الزامات
ان پر مالی بدعنوانی کے بےشمار الزامات آئے۔ رشوت خوری کی شہرت کی وجہ سے کا عوامی اور اخباری خطاب پایا۔ نواز شریف اور پرویز مشرف کے دور میں لمبی جیل کاٹی۔ پیپلز پارٹی اور پرویز مشرف کے درمیان مفاہمت کے نتیجے میں 2007ء، 2008ء، میں آپ کے خلاف تمام مقدمات ختم کر دیے گئے۔ بینظیر کے 2007ء قتل کے بعد جلاوطنی ختم کر کے پاکستان واپس آئے، اور پیپلزپارٹی کا بینظیر کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ شریک قائد کا عہدہ سنبھالا۔
الیکشن کے نتیجہ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کو پس منظر سے چلا رہے
صدارت سنبھالنے کے بعد بھی آصف علی زرداری پر مخا لفین کی جانب سے طلبِ رشوت کے الزامات اخباروں میں شائع ہوتے رہے۔ مگر یہ ثابت نہ ہوسکے اور نہ ہی کسی بھی عدالت میں ثابت نہیں کیے جاسکے البتہ مخالفین اخبارات اور افواہوں کے ذریعے بے شمار باتیں پھیلاتے ضرور رہے ہیں ۔۔۔
الیکشن کے نتیجہ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کو پس منظر سے چلا رہے
صدارت سنبھالنے کے بعد بھی آصف علی زرداری پر مخا لفین کی جانب سے طلبِ رشوت کے الزامات اخباروں میں شائع ہوتے رہے۔ مگر یہ ثابت نہ ہوسکے اور نہ ہی کسی بھی عدالت میں ثابت نہیں کیے جاسکے البتہ مخالفین اخبارات اور افواہوں کے ذریعے بے شمار باتیں پھیلاتے ضرور رہے ہیں ۔۔۔